Ticker

12/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

11 نومبر 1975 کو آسٹریلیا کی سیاسی تاریخ کے ڈرامائی باب کے طور پر کیوں دیکھا جاتا ہے؟



11 نومبر 1975 کو آسٹریلیا کی سیاسی تاریخ کے سب سے ڈرامائی باب کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جب ایک گورنر جنرل نے ایک منتخب وزیراعظم کو برطرف کرکے اس کی حکومت تحلیل کر دی۔
آسٹریلوی وزیراعظم گوف وٹلہم سحرانگیز شخصیت کے مالک اور ایک ترقی پسند رہنما تھے جو 18 مہینے پہلے بھاری اکثریت سے دوسری بار منتخب ہوکر اقتدار میں آئے تھے، اس سے قبل گورنر جنرل کو ملکہ برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت سے محض ایک علامتی عہدیدار سمجھا جاتا تھا۔
اس ڈرامائی موڑ پر پارلیمنٹ کے باہر تقریر میں وٹلہم نے کہا کہ خدا ملکہ برطانیہ کی حفاظت کرے کیونکہ گورنر جنرل کو تو اب کوئی نہیں بچا سکتا وہ اپنی ساری زندگی اپنے خلاف ہونے والی سازش پر آواز بلند کرتے رہے۔
وزیراعظم وٹلہم کی برطرفی کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا، جس پر وٹلہم کے حامیوں نے بھرپور احتجاج کیا اورگورنر جنرل جون کرکو تارِیخی حقائق مسخ کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کے الزامات کا سامنا رہا۔
ان ہی حقائق کی کھوج اور تجسس نے آسٹریلوی مورخ جینی ہوکنگ کو تحقیق پر اکسایا، قومی محافظ خانے میں جمع کرائی گئی یادداشتوں نے گورنر جنرل جون کر کی وزیراعظم گوف وٹلہم کے خلاف سازش کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
پروفیسر ہوکنگ نے 2015 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب 'The Dismissal Dossier' میں گورنر جنرل کی اپوزیشن رہنما مالکولم فریسر کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کا انکشاف کیا اور ساتھ ہائی کورٹ کے ججز سے مذاکرات کے بارے میں آگاہ کیا جنہوں نے وٹلہم کی برطرفی کا خط ترتیب دینے میں مدد دی۔
اس تمام کہانی میں سے ملکہ برطانیہ اور گورنر جنرل کے درمیان ہونے والے خطوط کے تبادلے کا ریکارڈ غائب تھا۔
1200 صفحوں پر مشتمل ان 211 خطوط کو حال ہی میں نییشنل آرکائیوز کی ویب سائٹ پر پبلک کردیا گیا ہے۔
جن میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گورنر جنرل جون کر نے ملکہ برطانیہ کو وزیراعظم وٹلہم کو برطرف کرنے کے فیصلے سے پیشگی آگاہ نہیں کیا تھا اور ساتھ انکشاف ہوا ہے کہ ملکہ برطانیہ کے سیکریٹری مارٹن چیٹرس اور گورنر جنرل جون کر کے درمیان حکومت برطرف کرنے اور پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے محفوظ حق کو استعمال کرنے سے متعلق مشاورت ہوئی۔
انہوں نے وزیراعظم وٹلہم سے رازداری برتی اور حقائق چھپائے جبکہ گورنر جنرل کی حیثیت سے وہ ان کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے پابند تھے۔
پروفیسر ہوکنگ کا کہنا ہے کہ شاہی محل کے ساتھ ہونے والی وہ تمام گفتگو نہایت غیرمناسب ہے، ملکہ برطانیہ کو سیاست سے بالاتر ہوکر غیرجانبدار ہونا چاہیے۔
ان خطوط میں تاج برطانیہ کے ساتھ پارلیمنٹ جہاں منتخب حکومت کی اکثریت ہے اس کو تحلیل کرنے اور حکومت برطرف کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، اس سے بڑھ کر سیاسی گفتگو اور کیا ہوسکتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments